اس جمہوری عمل کے متوازی ایک اور ریاستی نظام بھی اپنے فرائض انجام دے رہا ہوتا ہے اور وہ ریاستی نظام سرکاری ملازمین اور سول و ملٹری بیوروکریسی پرمشتمل ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تمام ادارے، سول و ملٹری بیوروکریسی اپنا اپنا کام خودمختار طریقہ سے کر رہے ہیں تو پھر سیاسی نظام اور الیکشن وغیرہ کی کیا ضرورت ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا بہترین سے بہترین ادارہ اور سسٹم بھی چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ناکام ترین ثابت ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال کسی بہت ہی پائے کی کمپنی کی موٹر کار ہے۔ اگر آپ کو ایک ایسی مہنگی سے مہنگی گاڑی فراہم کر دی جائے تو پھر بھی آپ کو اس کی دیکھ بھال کمپنی کے بتائے گئے پیرامیٹرز کے مطابق ایک مسلسل عمل کے طور پر کرتے رہنا پڑے گی۔
بالکل اسی طرح سے ریاستی اداروں اور بیوروکریسی کا نظام جتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو ان پر سویلین کنٹرول کے بغیر یہ ادارے اور ان میں کام کرنے والے افراد بے لگام ہوکر رشوت ستانی اور نا اہلی کا ایک ایسا راج قائم کر دیتے ہیں کہ ریاست تک کا وجود داؤ پر لگ جاتا ہے۔
اگر ہمارے پاس موجود نظام حکومت یا پھر مثال کے مطابق گاڑی کی حالت انتہائی نازک ہو تو پھر اس کی دیکھ بھال کے لیے زیادہ نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح گاڑی بنیادی طور پر گاڑی کے مالک کی ملکیت اور ذمہ داری ہے، گاڑی کے کاریگر کی نہیں، اسی طرح سے ریاست کی اصل ذمہ داری ریاست کے اصل مالکوں یعنی عوام اور عوامی نمائندوں کی ہے۔ جبکہ ریاست کے ملازمین کا کردار یہی ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق ہی اپنی ذمہ داریوں کا فریضہ ادا کریں اور ریاست کی ملکیت کے اظہار سے اجتناب برتیں۔