دنیاوی خوشیوں کا تعلق مکمل طور پر مادیت پرستی اور اس کی بنیاد پر نفسانی خواہشات کے پورا ہونے پر ہے۔ ایسی خوشیاں مکمل طور پر وقتی ہوتی ہیں اور “آتا ہے دھن جاتا ہے دھن” کے مصداق جب تک روپیہ پیسہ اور مال و دھن ہے، تب تک وہ دنیاوی خوشیوں کے مزے میں ہیں۔ ایسے لوگ جو دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں، دراصل ان کے قلوب ایمان و یقین کی روشنی سے خالی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ لوگ دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے کو آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پر ترجیح دے کر اپنی آخرت کو خراب کر بیٹھتے ہیں۔
دوسری جانب نفس مطمعن ایسے اللہ کے بندے ہیں جن کے قلوب مطمعن و سکون میں آ چکے ہیں۔ اس کی وجہ مادیت نہیں بلکہ اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم کے احکامات کا وہ مکمل نظام ہے جس کو وہ روح و قلب سے تسلیم کر چکے ہیں۔ کیونکہ دین مکمل ہو چکا ہے، اس لیے مادیت کے حساب سے چاہے وہ مفلس ہوں یا امیر لیکن جتنا وہ اللہ و رسول کے احکامات کو بااحسن طریقے سے اپنے قلوب و جسم پر نافذ کرتے ہیں، اور اس کے لیے اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم کے احکامات کے تابع کرتے ہوئے تزکیہ نفس کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، ایسے ہی پاک نفوس، نفوس مطمعن کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگ دراصل دور اندیش ہوتے ہیں، جو آخرت کی زندگی کو دنیا کی چند روزہ عارضی آسائیشوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم وہ دنیا کی سب سے بڑی دولت، یعنی نفس مطمعن کی دولت کو بھی دنیا ہی میں حاصل کر چکے ہوتے ہیں، جبکہ آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی آسائیشیں بھی ان نفوس مطمعن کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔